Monday 2 January 2017

Baba Abdullah

🔹عبداللّٰہ بابا ☜جاگیردارانہ نظام🔹
(تاریخ پیدائش 1905 - تاریخ وفات1981)

مسلمان ھونے کےساتھ تمام انسان بابا آدم و اماں حوا کی اولاد ھیں اگرچہ شناخت کے لیےمختلف قبیلوں کےنام دیئے.لیکن انسان کی ادنٰی واعلٰی غیراسلامی سوچ وجہالت اورطبقاتی کشمکش نےتفریق پیدا کی تومسلمان کاانسان کوحقیروکمترسمجھنا.طاقتورکاکمزور پہ حاوی ھونےکاایک نظام بنتا گیا.اور متوسط طبقےکااستحصال کیا جاتا رھا.
صوبہ سرحد(خیبر پختونخواہ)ھزارہ ضلع مانسہرہ کےدوراُفتادہ گاؤں جالگلی سےتعلق رکھنےوالے"عبداللہ بابا"
 آپ کاتعلق نونہارہ قبیلہ سے تھا.مادری زبان گجرو تھی.جموں کشمیر سے فتح علی سروری کی کتاب" گجر انسائیکلوپیڈیا" میں نانہارہ (Narara)قبیلہ کو گجر لکھا گیا ہے۔ انورکلوری صاحب کی تحقیق کے مطابق بھی نونہارہ گجر ھیں اور ضلع مانسہرہ کے علاوہ افغانستان میں آباد ہیں اسی طرح مفتی ادریس ولی صاحب بھی نونہارہ کوگجر قبیلہ بتارھے ھیں.کتاب"برصغیر کی ذاتوں کا انسائیکلوپیڈیا" میں نوناری قوم کو کاشت کار قوم لکھا ھے.بعض کے مطابق نونہارہ اعوان قبیلہ سے ہیں. عدالتی مقدمات میں بابا کا قبیلہ گجر لکھا ھے.
جہنوں نے"1956" سے"19700"تک کم وبیش پندرہ سال جاگیرداری نظام کو قانونی طورپہ1872"اوراس سےپہلےکی موروثی دستاویزی ریکارڈ کےتحت مہینوں پیدل چل کرتنگدستی کےدورمیں ڈسٹرکٹ کورٹ،سیشن کورٹ ایبٹ آباد"ھائی کورٹ پشاور"اور"قدیم سپریم کورٹ آف پاکستان لاھور" میں چیلنج کیا.
 علاقےکےبعض صاحب حیثیت افراد کا حسب توفیق مالی تعاون بھی شامل رھا.بالآخر"سپریم کورٹ آف پاکستان لاھور" نےآپ کےحق میں تاریخی فیصلہ دیا.باقاعدہ اُس وقت کی اخبار میں اس کیس کی بمع تصویراشاعت ہوئی جوآپ کےبھتیجے(چچازاد بھائی کےفرزند)"محمدحسین مرحوم"انگلینڈ سے بطور یادگار اخبارپاکستان لے کرآئے.آج کے مقابلےاُس زمانے میں اخباروغیرہ کی اشاعت اپنا ایک مقام رکھتی تھی.یہ جاگیرداری نظام کےخلاف ھزارہ کی تاریخ کا پہلا کیس تھا.اگرچہ اس کیس کی نوعیت ایک علاقائی سطح کی تھی پراس کی مناسبت سے ایسے تمام لوگ تھوڑے بہت رقبے کےساتھ محفوظ و قابض رھے جو صدیوں سےآبادتھےاوربنجرزمین کوخون پسینے سےقابل کاشت لائےپر اُن کوحق اراضی سےبیدخل کرکچھ افراد کومختلف خطاب سے نوازکر اکثریتی طبقےکوبیگارپہ مجبورکیاجاتارھا.اس کیس کی نقول حاجی اسماعیل صاحب کے پاس بھی تھیں جس کےتناظر میں""سردارمحمدیوسف صاحب"" نےتاریخی""کسان محاذ پاکستان""کاکیس لڑا.دوران کیس بابا کوہراساں کیاجاتارھاعزیزواقارب کواذیتیں دی گئیں جیل کاٹیں حوالات میں بندچچازادبھائی" دين محمد مرحوم"کوبرہنہ کرکےگھنٹوں الٹالٹکاکرتاریخ کابدترین تشدد کیا گیا.بیٹےعبدالحکیم مرحوم نےتشدد کاسامنا کیا.طاقت کےزور پہ دباؤڈالنے اوربابا کی گرفتاری کیلئےجب مخالف طرف سے"SHO سلطان خان" کی سرپرستی میں فورسزاوردیسی وفاداروں کی بڑی تعدادکےساتھ غیرانسانی پُرتشددچڑھائی کی.2 سے 3 دن کےپُرتشددمحاصرےکےبعدمزاحمت پہ رات بھرفائرنگ کا تبادلہ  ھوا،اسلحہ چھوڑکر واپسی پہ مجبورھوئےتوبعد میں مذاکرات کےبہانےآپ کےبیٹے"عبدالمجید"کو گرفتارکیااور(جنرل ایوب کےٹف لاءاینڈآرڈر کےدورحکومت) میں3 سال قید کی سزا کاٹی.ہری پور جیل میں قیدبامشقت کی سزا کےنشانوں نےجسم پہ نقش چھوڑے.دوران قید ماں کی موت کا دکھ بھی اذیت سےکم نہ تھا.(فائرنگ کیس "مفتی محمدادریس ایڈوکیٹ"نے ایبٹ آبادسیشن کورٹ سے لڑا).تکلیفوں کا سامنا کیا پرطاغوتی نظام اورغلامی کو قبول نہیں کیا.یہ علاقے میں مضارعین سے ہٹ کراپنی نوعیت کی پہلی وآخری ایک موروثی کاشتکارکے خلاف پُرتشدد کاروئی تھی.سردار عبدالرحمان گجر کی بے پناہ قربانی رہی اس کیس میں اور مرکزی کردار ادا کیااس کے علاوہ سردا محمد عالم کوٹ نجیب اللہ نے بھرپور ساتھ دیا،بابا سے والہانہ محبت رکھنے والے"مولاناغوث ھزاروی مرحوم"،مولاناعبدالحکیم مرحوم "، نے بھی بھرپورمعاونت کی.لاہور میں اپنے قریبی مفسرالقرآن مولاناقاضی محمدیونس صاحب کے ہاں قیام اور ان کی خدمات اورہری پور میں بیٹے کی قیدی کے دوران قریبی عزیزمولوی عبدالقیوم صاحب مرحوم کا تعاون بھی ساتھ رھا.جب بے بس لوگوں نےطاقت کے سامنےمعتصبانہ نظام کو ھی عافیت سمجھا تو آپ کےقریبی عزیز"جناب چرابی بابا مرحوم" نے بیگار جیسی لعنت سے زبردستی علاقے کے لوگوں کو روک کر عملاً اس نظام کو رد کروایا تو دوسری طرف کئ دوسرے بزرگوں نے اپنےعلاقے بھر پور اس معتصبانہ سلوک کے خلاف نکلے.1973میں مولانا عبدالحکیم مولانا ہزاروی نے باقاعدہ اسمبلی فلور سے بیگارکے خاتمہ کے لیے آواز اٹھائی."سردار عبدالرحمان گجر"کی قربانی ناقابل فراموش ہیں جہنوں نے متوسط طبقے کو طویل جدوجہد کے بعد ایک پلیٹ فارم پہ لایا. اوربابا کے چچازاد بھائی کے فرزند'سابق ناظم UCبٹل وبینک منیجرملک غلام حسن مرحوم"،حاجی محمد اسماعیل مرحوم"،سردار عبدالرحمان بابا"،سجادہ نشین گھنیلا شریف میاں ولی الرحمان مرحوم"،مولاناعبدالحی مرحوم"مولاناجلالی،اورسردارمحمد یونس"اوردوسرے تمام معززبزرگوں نے"1979"میں یکجا ھو کر اپنی دوراندیش سوچ وتجزیہ کےمطابق قابلیت کومدِنظررکھتےھوئے قائد حریت" سردار محمد یوسف "کواعتماد کے ساتھ یہ ذمہ داری سونپی تو "سردار محمد یوسف" نجات دھندہ ثابت ھوئےاورمتوسط طبقےکےتحفظ ساتھ ضلع کے طول وعرض بشمول منسلک اضلاع کے فرسودہ نظام ظلم اور برادریوں میں تفریق کو ختم کر کے سب کو اپنی محنت اور ھمت سےایک پلیٹ فارم پہ جمع کیا.آج الحمداللہ مسلم بھائی چارے کی فضا کےساتھ مکمل عروج پہ ھےاورضلع مانسہرہ ترقی کی راہ پہ گامزن ھے.
 متوسط طبقےاورسردار صاحب کو اللہ تبارک وتعالٰی نےعزت و مرتبہ دیابزرگوں کی قربانی،دعاؤں اور"سردارمحمد یوسف صاحب" کی زاتی محنت وحکمت اورھمت ھے.انکاکردار،شرافت،دین داری اورجدوجہد سے سبہی واقف ھیں.
 سپریم کورٹ کےفیصلےکےبعدقاضی آبادکےمقام علاقے کےفریق جاگیرداروں اوربابا نے ماضی کودرگزرکرکےمسلم بھائی چارے کا تعلق برقرار رکھا.
 بابا کےوکلاء" حیات محمد خان ایڈوکیٹ ھائی کورٹ پشاور"چوھدری عبدالحمیدایڈوکیٹ سپریم کورٹ لاھور"اور مفتی ادریس ایڈوکیٹ سیشن کورٹ و ڈسٹرک کورٹ ایبٹ آبادان وکلاء اور بابا کی محنت ،احساسات، تکلیفیں ایک مظلوم اورمتوسط طبقے کے حقوق اور ظلم کے خلاف تھی.ورنہ بابا کے پاس جالگلی جیسے بنجر پہاڑی پہ کوئی قیمتی رقبہ،جائیداد نہیں تھی مصائب میں اپنا وقت گزارا اور بخار کی شدت میں قرآن کی تلاوت کرتے اللہ کو پیارے ھوئے.اور چھٹاں جالگلی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ کیس میں بری ھونے پہ باباکی سادگی کی تصویر کندھے پہ اُون کی شال لٹکائےلمبا کرتہ پہنے روایتی پگڑی کے ساتھ پیپر میں شائع ھوئی اور قدیم سپریم کورٹ لاھورمیں آویزاں رہی.
 مرکزی جامع مسجد قاسم علی خان قصہ خوانی پشاور کے سابقہ خطیب علامہ عبدالرحیم پوپلزئی مرحوم مصنف ہونے کے ساتھ متوسط مظلوم طبقہ کے حقوق کے لیے بھی سرگرم رہے.1939 سے پہلے انگریز دور میں علامہ عبدالرحیم پوپلزئی نے ہزارہ کے دورے میں ہزارہ سے متعلق ایک کتاب لکھی جس میں آپ کے والد برکت اللہ کا مختصرذکر بھی ہے.

No comments:

Post a Comment