

(تاریخ پیدائش 1905 - تاریخ وفات1981)
مسلمان ھونے کےساتھ تمام انسان بابا آدم و اماں حوا کی اولاد ھیں اگرچہ شناخت کے لیےمختلف قبیلوں کےنام دیئے.لیکن انسان کی ادنٰی واعلٰی غیراسلامی سوچ وجہالت اورطبقاتی کشمکش نےتفریق پیدا کی تومسلمان کاانسان کوحقیروکمترسمجھنا.طاقتورکا
صوبہ سرحد(خیبر پختونخواہ)ھزارہ ضلع مانسہرہ کےدوراُفتادہ گاؤں جالگلی سےتعلق رکھنےوالے"عبداللہ بابا"
آپ کاتعلق نونہارہ قبیلہ سے تھا.مادری زبان گجرو تھی.جموں کشمیر سے فتح علی سروری کی کتاب" گجر انسائیکلوپیڈیا" میں نانہارہ (Narara)قبیلہ کو گجر لکھا گیا ہے۔ انورکلوری صاحب کی تحقیق کے مطابق بھی نونہارہ گجر ھیں اور ضلع مانسہرہ کے علاوہ افغانستان میں آباد ہیں اسی طرح مفتی ادریس ولی صاحب بھی نونہارہ کوگجر قبیلہ بتارھے ھیں.کتاب"برصغیر کی ذاتوں کا انسائیکلوپیڈیا" میں نوناری قوم کو کاشت کار قوم لکھا ھے.بعض کے مطابق نونہارہ اعوان قبیلہ سے ہیں. عدالتی مقدمات میں بابا کا قبیلہ گجر لکھا ھے.
جہنوں نے"1956" سے"19700"تک کم وبیش پندرہ سال جاگیرداری نظام کو قانونی طورپہ1872"اوراس سےپہلےکی موروثی دستاویزی ریکارڈ کےتحت مہینوں پیدل چل کرتنگدستی کےدورمیں ڈسٹرکٹ کورٹ،سیشن کورٹ ایبٹ آباد"ھائی کورٹ پشاور"اور"قدیم سپریم کورٹ آف پاکستان لاھور" میں چیلنج کیا.
علاقےکےبعض صاحب حیثیت افراد کا حسب توفیق مالی تعاون بھی شامل رھا.بالآخر"سپریم کورٹ آف پاکستان لاھور" نےآپ کےحق میں تاریخی فیصلہ دیا.باقاعدہ اُس وقت کی اخبار میں اس کیس کی بمع تصویراشاعت ہوئی جوآپ کےبھتیجے(چچازاد بھائی کےفرزند)"محمدحسین مرحوم"انگلینڈ سے بطور یادگار اخبارپاکستان لے کرآئے.آج کے مقابلےاُس زمانے میں اخباروغیرہ کی اشاعت اپنا ایک مقام رکھتی تھی.یہ جاگیرداری نظام کےخلاف ھزارہ کی تاریخ کا پہلا کیس تھا.اگرچہ اس کیس کی نوعیت ایک علاقائی سطح کی تھی پراس کی مناسبت سے ایسے تمام لوگ تھوڑے بہت رقبے کےساتھ محفوظ و قابض رھے جو صدیوں سےآبادتھےاوربنجرزمین کوخون پسینے سےقابل کاشت لائےپر اُن کوحق اراضی سےبیدخل کرکچھ افراد کومختلف خطاب سے نوازکر اکثریتی طبقےکوبیگارپہ مجبورکیاجاتارھا.اس کیس کی نقول حاجی اسماعیل صاحب کے پاس بھی تھیں جس کےتناظر میں""سردارمحمدیوسف صاحب"" نےتاریخی""کسان محاذ پاکستان""کاکیس لڑا.دوران کیس بابا کوہراساں کیاجاتارھاعزیزواقارب کواذیتیں دی گئیں جیل کاٹیں حوالات میں بندچچازادبھائی" دين محمد مرحوم"کوبرہنہ کرکےگھنٹوں الٹالٹکاکرتاریخ کابدترین تشدد کیا گیا.بیٹےعبدالحکیم مرحوم نےتشدد کاسامنا کیا.طاقت کےزور پہ دباؤڈالنے اوربابا کی گرفتاری کیلئےجب مخالف طرف سے"SHO سلطان خان" کی سرپرستی میں فورسزاوردیسی وفاداروں کی بڑی تعدادکےساتھ غیرانسانی پُرتشددچڑھائی کی.2 سے 3 دن کےپُرتشددمحاصرےکےبعدمزاحمت
متوسط طبقےاورسردار صاحب کو اللہ تبارک وتعالٰی نےعزت و مرتبہ دیابزرگوں کی قربانی،دعاؤں اور"سردارمحمد یوسف صاحب" کی زاتی محنت وحکمت اورھمت ھے.انکاکردار،شرافت،دین داری اورجدوجہد سے سبہی واقف ھیں.
سپریم کورٹ کےفیصلےکےبعدقاضی آبادکےمقام علاقے کےفریق جاگیرداروں اوربابا نے ماضی کودرگزرکرکےمسلم بھائی چارے کا تعلق برقرار رکھا.
بابا کےوکلاء" حیات محمد خان ایڈوکیٹ ھائی کورٹ پشاور"چوھدری عبدالحمیدایڈوکیٹ سپریم کورٹ لاھور"اور مفتی ادریس ایڈوکیٹ سیشن کورٹ و ڈسٹرک کورٹ ایبٹ آبادان وکلاء اور بابا کی محنت ،احساسات، تکلیفیں ایک مظلوم اورمتوسط طبقے کے حقوق اور ظلم کے خلاف تھی.ورنہ بابا کے پاس جالگلی جیسے بنجر پہاڑی پہ کوئی قیمتی رقبہ،جائیداد نہیں تھی مصائب میں اپنا وقت گزارا اور بخار کی شدت میں قرآن کی تلاوت کرتے اللہ کو پیارے ھوئے.اور چھٹاں جالگلی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ کیس میں بری ھونے پہ باباکی سادگی کی تصویر کندھے پہ اُون کی شال لٹکائےلمبا کرتہ پہنے روایتی پگڑی کے ساتھ پیپر میں شائع ھوئی اور قدیم سپریم کورٹ لاھورمیں آویزاں رہی.
مرکزی جامع مسجد قاسم علی خان قصہ خوانی پشاور کے سابقہ خطیب علامہ عبدالرحیم پوپلزئی مرحوم مصنف ہونے کے ساتھ متوسط مظلوم طبقہ کے حقوق کے لیے بھی سرگرم رہے.1939 سے پہلے انگریز دور میں علامہ عبدالرحیم پوپلزئی نے ہزارہ کے دورے میں ہزارہ سے متعلق ایک کتاب لکھی جس میں آپ کے والد برکت اللہ کا مختصرذکر بھی ہے.
Comments
Post a Comment