Wednesday 23 March 2016

راجپوت



راجپوت
جس کے معنی راجاؤں کے بیٹے کے ہیں اور وہ اپنا سلسلہ نسب دیو مالائی شخصیات سے جوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدا اور اصلیت کے بارے میں بہت سے نظریات قائم کئے گئے ہیں۔ ایشوری پرشاد کا کہنا ہے کہ وہ ویدک دور کے چھتری ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ سیھتن اور ہن حملہ آوروں میں سے بعض رجپوتانہ میں مقیم ہوگئے تھے اور انہوں نے اور گونڈوں اور بھاروں کے ساتھ برہمنی مذہب کو قبول کرکے فوجی طاقت حاصل کر لی تھی۔ مسٹر سی وی ویدیا کا کہنا ہے کہ پرتھی راج راسا کے مصنف چندر برائے نے راجپوتوں کو سورج بنسی اور چندر بنسی ثابت کرنے سے عاجز آکر ایک نئے نظریہ کے تحت ان کو ’اگنی کل‘ قرار دیا تھا۔ یعنی وہ آگ کے خاندان سے ہیں اور وششٹ نے جو قربانی کی آگ روشن کی تھی۔ اس سے راجپوتوں کا مورث اعلیٰ پیدا ہوا تھا۔ لیکن اب بعض فاضل ہندؤں نے اس شاعرانہ فسانے سے انکار کیا ہے اور زیادہ تر حضرات کا خیال ہے کہ راجپوت قوم کی رگوں میں غیر ملکی خون ہے۔ ٹاڈ نے اپنی مشہور کتاب ’تاریخ راجستان‘ میں اسی نظریے کی تائید کی ہے اور راجپوتوں کو وسط ایشیا کے ستھین قبائل کا قریبی قرار دیا ہے۔ جمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ عہد قدیم سے محمود غزنوی کے دور تک بہت سی اقوام ہند پر حملہ آور ہوئیں وہ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں شامل ہیں۔ اہم کی بات یہ ہے ان کے دیوتا، ان کے شجرہ نسب، ان کے قدیم نام اور بہت سے حالات واطوار چین، تاتار، مغل، جٹ اور ستھیوں سے بہت زیادہ مشابہہ ہیں۔ اس لئے باآسانی اندازہ ہوتا کہ راجپوت اور بالاالذکر اقوام ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
راجپوتوں کا عنقا مسلم علاقوں میں

ساتویں صدی عیسویں میں ہیونگ تسانگ نے راجپوت کا کلمہ استعمال نہیں کیا۔ بلکہ وہ گجر حکمرانوں کا ذکر کرتا ہے۔عرب حملوں کے زمانے (آٹھویں سے گیارویں صدی عیسوی) کے حوالے سے بدھ پرکاش لکھتا ہے کہ لفظ کشتری کم دیکھنے میں آتا ہے اور راجپوت کی اصلاح عام نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر پی سرن کے مطابق لفظ راجپوت نسلی معنوں میں دسویں صدی عیسویں تک استعمال نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ ٹھاکر کی اصطلاح جو مسلم مورخین نے اپنی تحریر میں چند بار استعمال کی ہے گجر قبیلہ کے بارے میں ہے۔ راوت کا کلمہ روٹھ یا روٹ یا ڑاٹ سے بنا۔ اس کا مطلب مشرقی ایران میں بادشاہ کے ہیں۔ واضح رہے کہ راجپوت کا کلمہ ساتویں صدی سے پہلے کہیں دیکھائی نہیں  دیتا ہے۔ غالباً اس کا قدیم تریں تلفظ ہن فاتح ٹورامن کے کرا کتبہ میں ملتا ہے۔ اس میں اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو راج پتر کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے اس کلمہ کو لغوی معنوں میں (بادشاہ کی اولاد) میں استعمال کیا گیا، جو کہ ایرانی کلمہ وس پوہر (بادشاہ کا بیٹا) کے مترادف ہے۔ وس سنسکرت میں بھی بادشاہ کے معنوں میں آتا ہے اور پوہر سنسکرت کے پتر کا مترادف ہے لیکن ساتویں صدی عیسویں سے اس کی جگہ راجہ استعمال ہورہا ہے۔ چنانچہ جب شنکر اچاریہ کے تحت کٹر برہمن مت کا احیا ہوا تو راجہ پتر کا لفظ استعمال ہوا۔ کلہانا نے راج ترنگی میں راجپوتوں واضح انداز میں غیر ملکی، مغرور، بہادر اور وفادار کہا گیا ہے یہ محض فرضی آرا نہیں ہے کسی مسلمان مورخ نے پنجاب، سندھ، بلوچستان، مکران، کیاکان، افغانستان، غزنی اور کشمیر کی لڑائیوں میں راجپوتوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔
راجپوتوں کا ارتقاء

ابو الغازی نے تاتاریوں اور مغل اقوام کے نسل وہ نسب کی روایتیں بیان کی ہیں۔ وہی روایتیں پرانوں میں آئی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ مغل و تاتار کے مورث اعلیٰ کا نام پشنہ تھا اور اس کے بیٹے کا نام اوغوز تھا۔ اوغوز کے چھے فرزند تھے۔ بڑے بیٹے کا نام کین یعنی سورج تھا۔ دوسرے بیٹے کا نام آیو یعنی چاند تھا۔ تاتاریوں کا دعویٰ ہے کہ وہ آیو یعنی چاند کی نسل سے ہیں۔ آیو کا بیٹا جلدس تھا۔ جلدس کا بیٹا ہیو تھا۔ جس سے شاہان چین کی نسل ہوئی ہے۔ ایلخان جو آیو کی چھٹی پشت پر تھا اس کے دوبیٹے تھے۔ ایک خان دوسران ناگس۔ ناگس اولاد نے تاتار کو آباد کیا۔ چنگیز خان کا دعویٰ تھا کہ وہ خان کی نسل سے ہے۔ ناگس غالباً تکش یا سانپ کی نسل ہے۔ افغانستان اور شمالی مغربی علاقے قدیم زمانے میں ہندوستان سے ملحق رہا ہے اور یہ علاقہ عہد قدیم میں ہندو تہذیب کے بڑے مرکزوں میں سے تھا۔ بھارت ورش کے زمانے میں یہ گندھارا کہلاتا تھا۔ کابل، گندھار (قندھار) اور سیستان اکثر سیاسی حثیت سے ہندوستان کا حصہ رہے ہیں۔ پارتھی عہد میں ان مقامات کو سفید ہند کہا جاتا تھا۔ اس علاقہ کی پرانی عمارات اور خانقاہوں کے کھنڈرات اس کی تائید کرتے ہیں۔ خصوصاً ٹیکسلہ کی عظیم انشان یونیورسٹی کے آثار جس کی شہرت آج سے دوہزار سال پہلے اپنے عروج پر تھی۔ اس زمانے جو بھی فاتح ہند پر حملہ آور ہوتا تھا تھوڑے عرصے میں اس کا شمار چھتریوں میں ہونے لگتا تھا۔ سکوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے حکمران کا نام غیر ملکی ہے۔ لیکن بیٹے یا پوتے کا نام سنسکرت میں ہے اور اس کی تخت نشینی یا تاج پوشی چھتری رسوم کے مطابق ہوتی تھی۔ راجپوتوں کے اکثر قبیلوں کا سلسلہ نسب سک یا سیتھی حملہ آوروں سے تھا یا وہ سفید ہن قوم کے حملہ آوروں میں سے تھے۔ یہی زمانہ تھا کہ باہرسے حملہ آور اقوام ہندو معاشرے میں داخل ہورہی تھیں اور ہندو تہذیب اختیار کررہی تھیں۔ ان حملہ آوروں کو گوترا عطا کرنے میں مقامی پنڈت سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے۔ اس طرح وہ ہندو تہذیب کی ترقی کی پوری کوشش کررہے تھے۔ چنانچہ وشنو، شیوا، چندی اور سوریہ وغیر کے ادیان بہت پھیل گئے۔ اس سے نہ صرف برہمنی مذہب نہ صرف اپنے عروج پر پہنچا۔ بلکہ بدھ مذہب کو سخت صدمہ پہنچا اور وہ برصغیر کو خیرباد کہنے پرمجبور ہوگیا۔ اس طرح راجپوتوں نے برہمنوں کے ساتھ مل ہندو دھرم کو ارسر نو زندہ کیا اور بدھوں کو تہس نہس کردیا۔ سک، پہلو یون اور ترشک جو وسط ایشیا کی مشہور قومیں تھیں اور وہ ہند پر حملہ آور ہوکر ہندو مذہب میں داخل کر راجپوت کہلائیں۔ ولسن کا کہنا ہے کہ راجپوت قبائل راٹھور، پوار، اور گہلوٹ وغیرہ یہاں پہلے سے آباد تھے۔ یہ چاروں قبائل اصل میں گجر ہیں جنہیں بعد میں راجپوت کہا جانے لگا ہے۔ کیوں کے یہ اس وقت حکمران تھے۔ اس بناء پر راجپوت یا راج پتر یعنی راجاؤں کی اولاد کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس کی اصل پہلوی کلمہ وسپوہر (شاہ کا بیٹا) سے ہے۔ ولسن انہیں غیر ملکی تسلیم کرتا ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے ساکا اور دیگر قبائل کے ساتھ مل کر برصغیر کی تسخیر کی تھی۔ راجپوت رسمی طور پر برہمنی مذہب میں داخل ہونے والے  گوجر ہیں جن لوگوں نے رسمی طور پر متصب برہمنی نظام کی شرائط اور قبول کرنے سے انکار کیا انہیں رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل نہیں کیا گیا اور وہ آج تک وہی جاٹ، گوجر اور آہیر ہیں۔ یہی وجہ ہے گجروں، جاتوں اور راجپوتوں مشترک قبائلی نام ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے مقصد کے پیش نظر وششتھاؤں نے راجستان میں کوہ آبو میں ایک قربانی کی آگ کا اہتمام کیا اور بہت سے نوادر لوگوں کو اس آگ کے ذریعہ پاک کیا۔ ان لوگوں کو راج پتر (بادشاہوں کی اولاد) کا نام دیا گیا جو وہ پہلے ہی تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایران بالخصوص سیستان میں بڑے زمیندار وس پوہر بادشاہوں کی اولاد کہلاتے تھے۔ برصغیر کی اصطلاح راج پتر کا ایرانی کلمہ کا ترجمہ ہے۔ قانون گو کا کہنا غلط ہے کہ اس سرزمین پر ابتدائی قابض جاٹوں کی جگہ نوادار راجپوتوں نے لی۔ قانون گو نے اس بات کو فراموش کردیا کہ پوار (پنوار)، تنوار، بھٹی، جوئیہ وغیرہ جاٹوں اور راجپوتوں دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ جاٹوں کی جگہ راجپوتوں نے اس لی کہ کہ برہمنوں نے موخر الذکر کے خلاف بھڑکایا۔ کیوں کہ راجپوت تھوڑا عرصہ پہلے ہندو مذہب میں آئے تھے۔ برہمنوں نے راجپوتوں کو اعلیٰ مقام دیا، ان کی تعریف میں قصائص لکھے اور انہیں رام ارجن (سورج اور چندر بنسی) سے جا ملایا۔ اس کے بدلے راجپوتوں نے پھر پور ’وکشنا‘ اور ’اگر ہارا‘ دیے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ برصغیر میں فاتح کی آمد پر جاٹوں کو براہمنی نظام میں مدغم کرنے کی سوچی سمجھی کوششیں کی گئی۔ غیر ملکی ساکا کو ہندو سماج کا حصہ بنانے کی غرض سے مشہور ’ورانا سٹوما‘ کی رسوم گھڑی گئیں اگر والا کا کہنا ہے کہ ان رسوم کی ادائیگی نہایت آسان تھی جو کہ محض ایک ضابطہ کی کاروائی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ غیر ملکیوں کو مذہبی رسوم کے ذریعہ ہندو سماج کا حصہ بنایا جائے۔ ویسنٹ اسمتھ کا کہنا ہے بعض گونڈوں اور بھاروں نے فوجی طاقت حاصل کر نے کے بعد برہمنی مذہب کو قبول کرلیا اس طرح وہ بھی راجپوتوں میں شامل ہوگئے۔ اس طرح راجپوت برہمنی رنگ میں رنگے جاٹ اور گوجر ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم راجپوتوں کے ظہور سے بہت پہلے صرف جاٹوں اور گوجروں کو وسطی برصغیر، راجستان گجرات سندھ میں پاتے ہیں۔ اگر کوئی راجپوت کسی جاٹ عورت سے شادی کرلے وہ جاٹ نہیں بنے گا۔ لیکن اگر وہ یا اس کی اولاد بیواہ کی دوبارہ شادی کا طریقہ اپنالے تو وہ جاٹ بن جائے گا۔ یہ مسلے کا اصل نقطہ ہے ایک راج پوت اور جاٹ میں صرف بیواہ کی دوسری شادی کا ہے۔ بیواہ کی شادی ہر دور میں رہی ہے۔ لیکن راجپوتوں کو براہمنوں کے غلط، غیر اخلاقی اور غیر منصفیانہ نظریات کے تحت اس بارے میں سننا بھی گوارہ نہ تھا۔ موجودہ دور میں پنجاب میں ان کی جاٹ اور راجپوتوں کی تقسیم بہت الجھی ہوئی ہے، ابسن کا کہنا ہے کہ پنجاب کے بڑے قبیلے راجپوت کہلاتے ہیں جب کہ ان کی شاخیں خود کو جاٹ کہتی ہیں۔ بیواہ کی شادی کی وہ اہم ترین نقطہ اختلاف تھا جو کہ کوہ آبو کی قربانی کے موقعہ پر جاٹوں اور برہمنوں کا اختلاف ہوا۔ جن لوگوں نے برہمنوں کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کیا وہ راجپوت کہلائے۔ اس کے برعکس جنہوں نے بیواہ کی شادی کرنے پر اصرار کیا وہ ہندو مذہب میں داخل ہونے کے وجود راجپوت کہلائے۔
راجپوتوں کا عروج

سی وی ویدیا ہشٹری مید بول انڈیا میں لکھتے ہیں کہ جب بدھ مذہب کے زیر اثرہندوں میں جنگی روح ختم ہوگئی تو راجپوتوں نے موقع پاکر ملک کے مختلف حصوں پر اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ بقول اسمتھ کے ہرش کی وفات کے بعد سے مسلمانوں کی آمد تک یعنی اندازاً ساتویں صدی عیسویں سے لے کر بارویں صدی عیسویں تک کے زمانے کو راجپوتوں کا دور کہا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کی آمد کے وقت کابل سے کامروپ تک کشمیر سے کوکن تک کی تمام سلطنتیں راجپوتوں کی تھیں اور ان کے چھتیس راج کلی (شاہی خاندان) حکومت کررہے تھے۔ چندر بروے نے اس تعداد کو پہلے پہل بیان کیا اور پنڈٹ کلہیان نے ’ترنگی راج‘ میں اس تعداد کی تصدیق کی ہے۔ جیمز ٹاڈ کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیوں کے بعد کے ناموں میں اختلاف ہے۔ چھتیس راج کلی میں برصغیر کا پہلا تاریخی خاندان موریہ خاندان اس میں شامل ہے لیکن اس بنا پر نہیں ہے بلکہ میواڑ کے ایک قدیمی خاندان کی وجہ سے۔
ان غیر ملکی اقوام نے برہمنی مذہب اختیار کرلیا، تو ہندو پنڈتوں نے انہیں نہ صرف چھتری قرار دیا اور انہیں گوتریں دیں اور ان کا نسلی تعلق دیو مالائی شخصیات سے جوڑ دیا۔ اس طرح یہ نسلی اعتبار سے پانچ طبقات میں مستقیم ہیں۔ یعنی راجپوت پانچ طبقوں میں تقسیم ہیں جو درج ذیل ہیں۔ # سوریہ یا سورج بنسی = ان کا مورث اعلی رام چندر ہے اور تمام سورج بنسی قبائل کے شجرہ نسب رام کے لڑکوں ’لو‘ اور ’کش‘ سے ملتے ہیں۔
راجپوتوں کی نسلی تقسیم

1. چندریا یا چندر پنسی = ان کا مورث اعلیٰ ہری کرشن تھا۔ ہری کرشن کا لقب یادو تھا، جس کا ایک تلفظ جادو ہے۔ اس لئے چندر بنسی قبائل یادو کے علاوہ جادو بھی کہلاتے ہیں۔
2. اگنی کل یا آگ بنسی = روایات کے مطابق برہمنوں نے کوہ آبو پر ایک اگنی کنڈ (آگ کے الاؤ) سے دیوتاؤں کی مدد سے پیدا کیا تھا
3. ناگ بنسی یا تکشک = ہند آریائی میں تکشک سانپ کو کہتے ہیں اور یہ اقوام کا دعویٰ ہے کہ یہ ناگ کی نسل سے ہیں۔
4. جٹ یا جاٹ = جٹوں کا راجپوتوں میں شمار نہیں ہوتا ہے۔ تاہم انہیں چھتیس راج کلی میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک کہانی کے مطابق جٹ قوم نے شیو دیوتا کے بالوں سے جنم لیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ جت
بھی لمبے لمبے بال رکھتے تھے۔ ان پنچوں طبقات میں بزرگ بالترتیب سوریہ، چندو، آگ بنسی، ناگ بنسی اور جاٹ آتے ہیں۔ راجپوتوں کے اپنے بیشمار جغعرفیائی مساکن اور متفرق ساکھاؤں میں اور گوتوں کی وجہ سے ان کی اتنی شاخیں ہوگئیں کے شمار محال ہے۔ یہ قبائل کے علاوہ خاندانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان خاندانوں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے گروہ جو اپنے کو مستقل گروہ قرار دیتے تھے۔ اس طرح راجپوت سیکڑوں نہیں ہزاروں گروہ میں بٹے گئے ہیں۔
راجپوتوں کا کردار

ایشوری پرشاد کا کہنا ہے، کہ راجپوتوں نے جنگ کو اپنا پیشہ بنا رکھا تھا اور نظم و نسق کے بلند اور شریفانہ فرائض سے غافل ہوگئے تھے۔ جس کی بجاآوری نے اشوک و ہرش کو غیر فانی بنا دیا تھا۔ کوئی ایسی تحریری شہادت موجود نہیں ہے کہ جس سے نظم و نسق و حکومت کے دائرے میں راجپوتوں کے کارناموں کا اظہار ہوا ہو۔ ان کی پوری تاریخ قبائلی جنگ و پیکار کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہی وجہ ہے وہ بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کرسکے اور انہیں پسپا ہوا پڑا اور ان کی طاقت کو ذوال آگیا۔ کبر و نخوت ان کی بربادی کا سبب بنی، ذات پارت کی قیود سے باہمی نفاق اور حسد و کینہ کی پرورش ہوئی۔ اس لئے ان کی معاشی طاقت کمزور ہوگئی تھی۔ اس لئے ان کا نظام حکومت جاگیر ادرانہ تھا۔ یہ سیاسی اعتبار سے متحد نہیں تھے۔ اس لئے وہ بیرونی حملہ آوروں کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوگئے۔ سی وی ویدیا لکھتے ہیں کہ قنوج اور بنگال کے سوا راجپوت راجاؤں کو مسقل فوج رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ بعض تو ضرورتوں کے وقت فوج بھرتی کرلیا کرتے تھے اور بعض اپنے جاگیرداروں سے ان کے متوسلین کو طلب کرلیا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو حکومتوں کے چلانے یا ان کو قائم رکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ صرف حکمران خاندان اپنے ہم قبیلہ بھائی بندوں کو ساتھ لے کر حریف سے بھڑ جاتاتھا۔ فتح پائی تو فہا، شکست کھائی تو ملک حریف کے حوالے کردیا۔ عوام کو راج کے پلٹ جانے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ قنوج کے پرتیہار اور دکن کے راشتٹر کوٹ چونکہ جنگی قبیلے تھے، اس لئے ان کی فوج میں بیروی عنصر شامل نہیں تھے۔ البتہ بنگال کے پال اور سین راجاؤں نے مالوہ جنوبی گجرات کرناٹک وغیرہ کے بعض لوگوں کو بھرتی کررکھا تھا۔ کیوں کہ بنگال میں راجپوتوں کی تعداد کافی نہیں تھی اور بنگالی اس زمانے میں جنگی قوم نہیں سمجھے جاتے تھے۔ باقی ملک میں بھی راجپوت راجاؤں کے ہاں مستقبل فوج کا کوئی وجود نہیں تھا۔ شمالی برصغیر میں راجپوتوں کی ریاستیں دہلی، اجمیر، قنوج، گندھار، مالوہ اور گجرات میں قائم ہوئیں۔ دہلی اور اجمیر کی ریاست کا بانی اگرچہ اننگ پال تھا، لیکن پرٹھوی راج کو سب سے زیادہ شہرت ملی۔ قنوج میں مختلف راجپوت خاندانوں نے حکومت کی۔ گندھارا کی ریاست کے حکمرانوں میں جے پال اور انند پال زیادہ مشہور ہوئے۔ جے چند راٹھور نے کافی نام پیدا کیا۔ مالوہ میں پڑھیار خاندان کی حکومت تھی۔ اس خاندان کا راجہ بھوج بحثیت قدردان علم بہت مشہور ہوا۔ وہ خود عالم اور شاعر تھا۔ گجرات بندھیل کھنڈ اور بنگال میں مختلف خاندانوں نے حکومت کی۔ میواڑ کی ریاست میں بھی مشہور راجہ گزرے ہیں۔ بالائی دکن کے زیریں (جنوبی علاقے) چولا، چیرا اور پانڈیا کی ریاستیں قائم ہوئیں۔
راجپوتوں کے خصائص

راجپوتوں نے اگرچہ اپتدا میں مسلمانوں کے خلاف کامیاب دفاع کیا اور مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا۔ اور مسلمانوں کے خلاف یہ باز اوقات متحد بھی ہوگئے۔ خاص کر محمود غزنوی کے خلاف جے پال کی سردگی میں، محمد غوری کے خلاف پرٹھوی راج چوہان کی سردگی میں اور بابر کے خلاف رانا سنگا کی سردگی میں۔ مگر یہ وقتی وفاق تھا جو صرف جنگ تک محدود رہا اور جنگ کے بعد ان کے درمیان وہی نفاق، پیکار اور جنگ کا سلسلہ جاری رہا۔
راجپوت آج بھی اپنی بہادری کی وجہ سے یاد کئے جاتے ہیں۔ شجاعت اوردلاوری میں ہند کی اقوام میں کوئی ان سا پیدا نہیں ہوا ہے۔ راجپوت اپنی بات کے پکے، تیغ زنی کے ماہر اور اعلیٰ قسم کے شہسوار تھے۔ اپنی آن بچانے کے لئے جان کی بازی لگادیتے تھے۔ راجپوتوں نے اپنی خوبیوں کی بدولت کافی عرصہ (ساتویں صدی عیسوی تا بارویں صدی عیسوی) تک برصغیر میں حکومت کی اور ایک تہذیب قائم کی۔ لیکن یہ اپنی بالاالذکر برائیوں کی بدولت ان کی طاقت کو ذوال آگیا اور انہیں بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں پسپا ہونا پڑا۔ راجپوت نہ صرف میدان جنگ میں جوہر دکھاتے تھے، بلکہ عمدہ انسان اور اعلیٰ میزبان تھے۔ مہمان نواز اور سخاوت کا جذبہ ان میں موجود تھا۔ راجپوت آرٹ و ادب اور موسیقی کے دلدادہ تھے۔ راجپوت مصوری کی اپنی انفرادیت ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے مصوری کا ایک اسکول وجود میں آیا۔ ہر راجہ کے دربار میں ایک نغمہ سرا ضرور ہوتا تھا، جو خاندانی عظمت کے گیت مرتب کرتا تھا۔ ان کی معاشرتی زندگی اچھی ہوتی تھی۔ اگرچہ ان میں بچپن میں شادی کا رواج تھا، لیکن اعلیٰ خاندان کی لڑکیاں جب جوان ہوتی تھیں تو اپنی پسند کی شادی کرتی تھیں۔ راجپوت عورتیں اپنی پاک دامنی اور عضمت پر جابجا طور پر ناز کرسکتی تھیں۔ ستی اور جوہر کی رسم اس جذبے کی ترجمانی کرتی تھی۔ جب کسی عورت کا شوہر کا مرجاتا تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ آگ میں جل جانا پسند کرتی تھیں۔ اس طرح کسی جنگ میں ناکامی کے خدشے کے بعد راجپوت اپنی عورتوں کو قتل کرکے میدان جنگ میں دیوانہ وار کود جایا کرتے تھے۔ (انوار ہاشمی، تاریخ پاک و ہند۔ ۷۱) ایک عجیب رسم شادی کی تھی وہ شادی اپنے قبیلے یا ہم نسلوں میں نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اس کے لئے ضروری تھا کہ شادی جس سے کی جاتی تھی ان کے درمیان پدری سلسلہ نہ ہو۔ راجپوت رانا، راؤ، راول، راجہ اور راجن وغیرہ لائقہ استعمال کرتے ہیں،ان تمام کلمات کے معنی راج کرنے والے۔ مسلمانوں میں سے مغلوں نے راجپوتوں کے جنگی جذبہ سے فائدہ اٹھایا اور راجپوتوں کو اپنے لشکر میں بھرتی کثرت سے بھرتی کیا۔ مغلوں کی اکثر فتوحات راجپوتوں کی رہیں منت تھیں۔ جہانگیر اجمیر کے بارے میں لکھتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر یہاں سے پجاس ہزار سوار اور تین لاکھ پیادے باآسانی حاصل ہوسکتے ہیں۔
راجپوتوں کا مذہب

راجپوتوں کا سب سے بڑا دیوتا سورج تھا۔ وہ اس کی پرستش کرتے اور اس کو راضی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس کے نام پر اشو مید (گھوڑے کی قربانی) کرتے تھے اور اسی کے نام پر لڑتے تھے اور جان دیتے تھے۔ وہ اسے سوریہ کہتے تھے۔
ما خوذ آزاد دائرۃ المعارف وکی پیڈیا

Sunday 20 March 2016

Mr.Sandip Gajjar | Best Corporate Trainer

Corporate Motivational Speaker Mr.Sandip Gajjar | Best Corporate Trainer

Mr.Sandip Gajjar(NLP Master) is a passionate corporate trainer & motivational speaker par excellence.

C.E.O. SNEH WORLD
CORPORATE TRAINER
AUTHOR
NLP MASTER PRACTITIONER
NETWORK TRAINING SPECIALIST
RADIO OFFICER
PEAK PERFOMANCE COACH
CO-FOUNDER OF "INDIAN TRAINERS ASSOCIATION"
sandip@snehworld.com

google.com/+mrsandipgajjar(Other Service)
linkedin.com/in/mrsandipgajjar(Other Service)
mrsandipgajjar(Twitter)
youtube.com/mrsandipgajjar(Other Service)
He has 19 years of experience as a hard core sale professional & as a trainer. He started from grass-root sales person
 to operations head in the largest direct selling companies of the World(Eureka Forbes Ltd.) During these years,
 he handled numerous assignments related to sales & marketing, team building, administration, strategic planning
and leadership training. During his professional tenure he was instrumental in setting up and expansion of exports
divisions in international market like Dubai, Sharjah and Abu-Dhabi. Presently, as CEO of Sneh World, he trains &
 grooms upcoming trainers through Train The Trainer Program - Enables hundreds of people to excel in their job,
 business or profession through his workshops & corporate training across various industries in India. Additionally,
 training for networkers, personal coaching projects for corporate leaders, businessmen & entrepreneurs is the
unique ability of Mr.Sandip. He has designed number of seminar and workshops like Krishna Katha,
 Neuro Linguistic Psycology (NLP), Train The Trainer Program (T3p), Corporate Workshop,
Commando Training for networkers, Go-diamond Workshop for
 Networkers.

مہاراجہ کنشک کشان گجر

مہاراجہ کنشک کشان گجر تحریر :- احمد وقار گجر
تاریخ دانوں نے مہاراجہ کنشک کو بیرونی حملہ آور تحریر کرتے ھوئے لکھا ھے کہ شاکا،ھن،گرجر بیرونی حملہ آور تھے ان کی تباہ کاریوں کی وجہ سے مسلم دور سے قبل کی تاریخ تحریر کرنا مشکل ھو گیا. کشان بیرونی حملہ آور تھے یہ کہیں سے ثابت نہیں. وہ اس لئے کہ راج ترنگنی سے سات سو سال پہلے " برھم سدھانت" کتاب لکھی گئی جس میں مہاراجہ کنشک کو مہاراجہ یدھشتر (پانڈو ) کی نسل تحریر کیا گیا ھے. مہاراجہ یدھشتر سورج ونشی خاندان سے تعلق رکھتا تھا. ملک کے طول و عرض میں جتنے بھی آج کشانہ سب گجر کہلواتے ھیں. اور اپنے آپ کو شری رام چندر کے بیٹے مہاراجہ کش کی اولاد مانتے ھیں. کشانوں کا یہ دعویٰ برھم سدھانت کتاب سے مطابقت رکھتا ھے. دوسری صدی عیسوی کا جو کتبہ موجودہ ریاست بہاولپور وادی ستلج سے برآمد ھوا. جس کا حوالہ بمبئی گزیٹر میں موجود ھے اس سے پتہ چلتا ھے کہ اس علاقہ کا نام کشانوں نے اپنے دور حکومت میں اپنی قوم کے نام پر گرجراتر (گجرات) رکھا. اس سے پہلے یہ جویہ دیش تھا. اور یہاں جویہ خاندان کی حکومت تھی. جویہ گوت آج گجروں میں موجود ھے. غلام علی نے اپنی کتاب "خزانہ عامرہ " میں جویہ کو گجروں کا خاندان تحریر کیا ھے. یہاں یہ واضح کر دینا بھی ضروری ھے کہ مہاراجہ کنشک کے آباؤ اجداد کھٹ رائے کی اولاد ھونے کی وجہ سے کھٹانہ کہلاتے تھے مگر مہاراجہ کنشک چونکہ "بودھی" تھا اس لئے وہ کھٹانہ نہیں کہلایا بلکہ صرف کشان کہلایا اور اس کی اولاد کا بھی یہی گوت کشانہ کسانہ رہا. بقایا خاندان کے لوگ آج تک کھٹانہ ھی کہلاتے ھیں. .... افغانستان سے ملنے والے 1907ء کے کتبہ میں مہاراجہ کنشک کشان نے اپنے آپ کو "گزر" تحریر کیا ھے. مہاراجہ کنشک کی حکومت کا دارالخلافہ پرشپورہ پشاور میں تھا اور اس کی سلطنت کی حدود مغرب میں بحیرہ کیسپین تک تھی. جسے بعد میں بحر خزر کہا گیا. مہاراجہ کنشک نے بحر کیسپین کے اردگرد چھاونیاں بنائی اور وھاں گجر دستے مستقلاً تعینات کر دیئے. انھیں گجروں کے نام پر بحر کیسپین " بحر خزر " کہلانے لگا. اور اسی طرح وسط ایشیا کا ملک چیچن انگوشیتا چیچی گجروں کے نام پر ایک یادگار نشانی ھے. مہاراجہ کنشک کے زمانہ میں یورپ سے براستہ وسط ایشیا اور افغانستان ھمارے ملک تجارت ھوتی تھی. وسط ایشیا کے ملک ازبکستان میں ایک ضلع کا نام " گزر" اور ایک ضلع کا نام " کسان" ھے. ایران میں ایک شہر کا نام " کشان " ھے.

Friday 18 March 2016

Sajjad Haider Gujjar

Assembly Tenure: 2013-till date (16th Assembly )

Member Profile

Mr.   Sajjad Haider Gujjar

PP-169 (Sheikhupura-Cum-Nanakana Sahib-II)
  
Parliamentary Secretary: Housing, Urban Development & Public Health Engineering
Pakistan Muslim League (Nawaz)   (See other MPAs of this party)
  
pp169@pap.gov.pk
Ch Zahoor Ahmad
Muridkey P.O . Farooqabad, Tehsil & District: Sheikhupura
Mr Sajjad Haider Gujjar son of Ch Zahoor Ahmad was born on June 28, 1957 at Sheikhupura. He obtained the degree of B.Sc(Hons) in 1984 from University of Agriculture, Faisalabad. He served as Member, Punjab Assembly during 2002- 07. An agriculturist and a businessman, who has been elected again as Member Provincial Assembly of the Punjab in general elections 2013 and is functioning as Parliamentary Secretary for Housing, Urban Development & Public Health Engineering.

Ch. Shabbir Ahmed

Assembly Tenure: 2013-till date (16th Assembly )

Member Profile

  Ch. Shabbir Ahmed

PP-115 (Gujrat-VIII)
  
Member: Excise & Taxation 
Matriculation
Businessperson
Pakistan Muslim League (Nawaz)   (See other MPAs of this party)
  
pp115@pap.gov.pk
Ch. Abdul Malik (Late)
Married
3
1970-01-15
Gujrat
House No:268, Street No.37, G-9/I, Islamabad
Phone: 053-7589200, 053-7586201, 053-7576312
RelationshipNameParliamentPeriod
BrotherCh. Abid RazaNational Assembly of Pakistan2013-till date
CountryPurpose of visitDuration
Belgium
Bosnia and Herzegovina
FrancePrivate Tour1990
Hungary
Malaysia
Norway
Spain
Sweden
Switzerland
United Kingdom
Ch Shabbir Ahmad son of Ch Abdul Malik was born on January 15, 1970 at Gujrat and is a Matriculate. A businessman, who has been elected as Member, Provincial Assembly of the Punjab in general elections 2013. He has travelled to France, Italy, Germany, Switzerland, Hungary, UK, Norway, Sweden, UAE, Saudi Arabia, Malaysia, Spain, Bosnia and Belgium. His brother, Ch Abid Raza is a sitting MNA.

Tariq Subhani Gujjar

Assembly Tenure: 2013-till date (16th Assembly )

Member Profile

  Tariq Subhani

PP-125 (Sialkot-V)
  
Member: Planning & Development 
B.B.A
Businessperson
Pakistan Muslim League (Nawaz)   (See other MPAs of this party)
  
pp125@pap.gov.pk
Ch. Akhtar Ali
Married
2
1971-12-01
116 Mehmood Ghaznavi Road, District Sialkot Cantt:
052-4260154 (Res), 052-3258544 (Off), 0300-5355357, 0300-8611747
tari243@aol.com
RelationshipNameParliamentPeriod
FatherCh. Akhtar AliDistrict Council1979-1986
FatherCh. Akhtar AliProvincial Assembly of the Punjab1985-1988
FatherCh. Akhtar AliNational Assembly of Pakistan1990-1993
BrotherCh. Khush Akhtar SubhaniProvincial Assembly of the Punjab1990-1993
BrotherCh. Khush Akhtar SubhaniProvincial Assembly of the Punjab1993-1997
FatherCh. Khush Akhtar SubhaniProvincial Assembly of the Punjab2002-2007
CountryPurpose of visitDuration
CanadaBusiness2011-2012
ChinaBusiness2013
Czech RepublicBusiness2011
GermanyBusiness2011
Saudi ArabiaHajj, Umrah2010, 2011
United KingdomBusiness2004-2005
United StatesStudy1990-2012
Ch Tariq Subhani son of Ch Akhtar Ali was born on December 1, 1971 at Sialkot. He obtained Diploma from Nutley High School, New Jersey, USA and graduated in Business Administration in 1997 from William Patterson University, Patterson, USA. He has extensively travelled abroad. A businessman, who has been elected as Member, Provincial Assembly of the Punjab in general elections 2013. His father remained Member Punjab Assembly during 1985- 88 (functioned as Special Assistant to Chief Minister) and 1988-90 (served as Minister for Communication & Works); as Member, National Assembly during 1993-96; and also functioned as Chairman, Standing Committee on Narcotics. His brother, Ch Khush Akhtar served as Member, Punjab Assembly during 1990- 93, 1993-96 and 2002-07; and functioned as Chairman, Standing Committee on food during 1990-93 and Minister for Population Welfare and Prisons, Housing & Physical Planning, Environmental Planning during 1993-96.

Mian Tariq Mehmood

ssembly Tenure: 2013-till date (16th Assembly )

Member Profile

  Mian Tariq Mehmood

PP-113 (Gujrat-VI)
  
Member: Special Committee No.1, Public Accounts Committee-II, Finance Committee of the Assembly 
Pakistan Muslim League (Nawaz)   (See other MPAs of this party)
  
miantariq113@gmail.com
Mian Ghulam Rasool
Married
7
1955-05-05
Dinga, Distt: Gujrat
(a) Dinga, Tehsil Kharian, District Gujrat
(b) 31-I-C-II, Main College Road, Quiad Azam Town, Lahore
0537-401500 (Off), 042-35116092 (Fax), 0300-8433740
Official BodyPostDuration
Govt. of the PunjabMinister Population and Welfare1993
Provincial Assembly of the PunjabMPA2008-2013
Provincial Assembly of the PunjabMPA1988-1990
Provincial Assembly of the PunjabMPA1997-1999
Provincial Assembly of the PunjabMPA1990-1993
OrganizationPostTenure
Commonwealth Parliamentary AssociationRepresentative of the Asian Region
Commonwealth Parliamentary AssociationMember Executive Committee
RelationshipNameParliamentPeriod
BrotherMian Amjad MahmoodLocal Government1991-1996
DaughterMaria TariqProvincial Assembly of the Punjab2002-2007
CountryPurpose of visitDuration
CameroonOfficial TourOctober 2014
CanadaOfficial Tour2011
ItalyPrivate Tour
MalaysiaOfficial TourApril 2015
NorwayPrivate Tour
Saudi ArabiaUmrah1999-2008
SpainPrivate Tour
TurkeyOfficial TourJuly 2015
United KingdomOfficial Tour1999
United KingdomPrivate Tour2012, 2013
United StatesPrivate Tour2008
Mian Tariq Mehmood son of Mian Ghulam Rasul was born on May 5, 1955 at Dinga, District Gujrat and graduated in 2003 from University of the Punjab, Lahore. He remained Chairman, Town Committee Dinga during 1987-92; as Member, Provincial Assembly of the Punjab during 1988-90, 1990-93 and 1997-99 and 2008-13; and also functioned as Parliamentary Secretary for Social Welfare & Zakat during 1988-90 and 1990-93; and as Minister for Population Welfare during 1993. A businessman and an agriculturist, who has returned to the Punjab Assembly for the fifth term in general elections 2013. He has travelled to Norway, USA, UK, Canada, Italy, Spain and Saudi Arabia. His daughter, Ms Maria Tariq remained a Member of Punjab Assembly during 2002-07.

Ch Muhammad Ashraf

Assembly Tenure: 2013-till date (16th Assembly )

Member Profile

  Ch Muhammad Ashraf

PP-112 (Gujrat-V)
  
Member: Food
BA
Agriculturist
Pakistan Muslim League (Nawaz)   (See other MPAs of this party)
  
pp112@pap.gov.pk
Ch. Lal Khan
1946-05-06
Villege Deowa, P/O Basco Deowa Mandi, Tehsil & Distt Gujrat
0314-4553903, 0333-8404101
Official BodyPostDuration
District CouncilMember1979-1982, 1983-1987, 1988-1991
CountryPurpose of visitDuration
DenmarkPrivate Tour2000
GermanyPrivate Tour2000, 2003
NorwayPrivate Tour2000
Ch Muhammad Ashraf son of Ch Lal Khan was born on May 6, 1946 at Deona, Gujrat. He graduated in 2009 from University of the Punjab, Lahore. He served as Member, Union Council Deona during 1979-82; as Member, Zila Council for two terms during 1983-91; and as Chairman, Pakistan Bait-ul-Maal, District Gujrat during 1995-96. An agriculturist, who has been elected as Member, Provincial Assembly of the Punjab in general elections 2013. He has travelled to Norway, Germany and Denmark.

Nawabzada Haider Mehdi

Assembly Tenure: 2013-till date (16th Assembly )

Member Profile

  Nawabzada Haider Mehdi

PP-108 (Gujrat-I)
  
Parliamentary Secretary: Management and Professional Development
BA
Agriculturist
Pakistan Muslim League (Nawaz)   (See other MPAs of this party)
  
pp108@pap.gov.pk
Nawabzada Zafar Mehdi
Married
2
1984-08-24
Gujrat
Khoti Nawab Sahib, District Gujrat
0302-8620047
RelationshipNameParliamentPeriod
Great Grand FatherNawab Sir Fazal AliDistrict Council1921
Great Grand FatherNawab Sir Fazal AliPunjab Legislative Assembly1939-1942
Grand FatherNawabzada Mehdi AliProvincial Assembly of the Punjab1951-1955
FatherNawabzada Zafar MehdiNational Assembly of Pakistan1977
CountryPurpose of visitDuration
Malaysia
Maldives
Sri Lanka
United Arab Emirates
United Kingdom
Nawabzada Haider Mehdi son of Nawabzada Zafar Mehdi was born on August 24, 1984 at Gujrat. He graduated in 2006 from Burnel University, London, UK. He has also obtained Diploma in Business Studies and ABE (I) from City of London College, UK and Diploma in Business Administration from Holborn College, London. He has visited UK, UAE, Dubai, Malaysia, Maldives and Sri Lanka. An agriculturist, who has been elected as Member, Provincial Assembly of the Punjab in general elections 2013 and is functioning as Parliamentary Secretary for Management & Professional Development. He belongs to a prominent and renowned political family. His great-grandfather, Nawab Sir Fazal Ali Khan, remained Member of Punjab Legislative Assembly during 1937-42; his grandfather, Nawabzada Mehdi Ali served as Member of Punjab Legislative Assembly during 1951-55; his father remained Member of National Assembly during 1977; real brother of his grandfather, Nawabzada Asghar Ali, served as Member of Punjab Legislative Assembly during 1942-47 and 1951-55; Member of West Punjab Legislative Assembly during 1947-49 and Member of Provincial Assembly of West Pakistan during 1965-69; his uncle, Nawabzada Mazhar Ali was Member of Punjab Assembly during 1977, 1993-96 and as Member of National Assembly during 1985-88 and is a sitting MNA. His another uncle, Nawabzada Muzafar Ali was Member of Punjab Assembly during 1985-88; and his uncle, Nawabzada Ghazanfar Ali Gul remained Member of Punjab Assembly during 1988-90; Member of National Assembly during 1993-96; and Advisor to Prime Minister during 2010-11.