راجپوت
جس کے معنی راجاؤں کے بیٹے کے ہیں اور وہ اپنا سلسلہ نسب دیو مالائی شخصیات سے جوڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ابتدا اور اصلیت کے بارے میں بہت سے نظریات قائم کئے گئے ہیں۔ ایشوری پرشاد کا کہنا ہے کہ وہ ویدک دور کے چھتری ہیں۔ بعض کا کہنا ہے کہ یہ سیھتن اور ہن حملہ آوروں میں سے بعض رجپوتانہ میں مقیم ہوگئے تھے اور انہوں نے اور گونڈوں اور بھاروں کے ساتھ برہمنی مذہب کو قبول کرکے فوجی طاقت حاصل کر لی تھی۔ مسٹر سی وی ویدیا کا کہنا ہے کہ پرتھی راج راسا کے مصنف چندر برائے نے راجپوتوں کو سورج بنسی اور چندر بنسی ثابت کرنے سے عاجز آکر ایک نئے نظریہ کے تحت ان کو ’اگنی کل‘ قرار دیا تھا۔ یعنی وہ آگ کے خاندان سے ہیں اور وششٹ نے جو قربانی کی آگ روشن کی تھی۔ اس سے راجپوتوں کا مورث اعلیٰ پیدا ہوا تھا۔ لیکن اب بعض فاضل ہندؤں نے اس شاعرانہ فسانے سے انکار کیا ہے اور زیادہ تر حضرات کا خیال ہے کہ راجپوت قوم کی رگوں میں غیر ملکی خون ہے۔ ٹاڈ نے اپنی مشہور کتاب ’تاریخ راجستان‘ میں اسی نظریے کی تائید کی ہے اور راجپوتوں کو وسط ایشیا کے ستھین قبائل کا قریبی قرار دیا ہے۔ جمز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ عہد قدیم سے محمود غزنوی کے دور تک بہت سی اقوام ہند پر حملہ آور ہوئیں وہ راجپوتوں کے چھتیس راج کلی میں شامل ہیں۔ اہم کی بات یہ ہے ان کے دیوتا، ان کے شجرہ نسب، ان کے قدیم نام اور بہت سے حالات واطوار چین، تاتار، مغل، جٹ اور ستھیوں سے بہت زیادہ مشابہہ ہیں۔ اس لئے باآسانی اندازہ ہوتا کہ راجپوت اور بالاالذکر اقوام ایک ہی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
راجپوتوں کا عنقا مسلم علاقوں میں
ساتویں صدی عیسویں میں ہیونگ تسانگ نے راجپوت کا کلمہ استعمال نہیں کیا۔ بلکہ وہ گجر حکمرانوں کا ذکر کرتا ہے۔عرب حملوں کے زمانے (آٹھویں سے گیارویں صدی عیسوی) کے حوالے سے بدھ پرکاش لکھتا ہے کہ لفظ کشتری کم دیکھنے میں آتا ہے اور راجپوت کی اصلاح عام نہیں ہوئی تھی۔ ڈاکٹر پی سرن کے مطابق لفظ راجپوت نسلی معنوں میں دسویں صدی عیسویں تک استعمال نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ ٹھاکر کی اصطلاح جو مسلم مورخین نے اپنی تحریر میں چند بار استعمال کی ہے گجر قبیلہ کے بارے میں ہے۔ راوت کا کلمہ روٹھ یا روٹ یا ڑاٹ سے بنا۔ اس کا مطلب مشرقی ایران میں بادشاہ کے ہیں۔ واضح رہے کہ راجپوت کا کلمہ ساتویں صدی سے پہلے کہیں دیکھائی نہیں دیتا ہے۔ غالباً اس کا قدیم تریں تلفظ ہن فاتح ٹورامن کے کرا کتبہ میں ملتا ہے۔ اس میں اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو راج پتر کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے اس کلمہ کو لغوی معنوں میں (بادشاہ کی اولاد) میں استعمال کیا گیا، جو کہ ایرانی کلمہ وس پوہر (بادشاہ کا بیٹا) کے مترادف ہے۔ وس سنسکرت میں بھی بادشاہ کے معنوں میں آتا ہے اور پوہر سنسکرت کے پتر کا مترادف ہے لیکن ساتویں صدی عیسویں سے اس کی جگہ راجہ استعمال ہورہا ہے۔ چنانچہ جب شنکر اچاریہ کے تحت کٹر برہمن مت کا احیا ہوا تو راجہ پتر کا لفظ استعمال ہوا۔ کلہانا نے راج ترنگی میں راجپوتوں واضح انداز میں غیر ملکی، مغرور، بہادر اور وفادار کہا گیا ہے یہ محض فرضی آرا نہیں ہے کسی مسلمان مورخ نے پنجاب، سندھ، بلوچستان، مکران، کیاکان، افغانستان، غزنی اور کشمیر کی لڑائیوں میں راجپوتوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔
راجپوتوں کا ارتقاء
ابو الغازی نے تاتاریوں اور مغل اقوام کے نسل وہ نسب کی روایتیں بیان کی ہیں۔ وہی روایتیں پرانوں میں آئی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ مغل و تاتار کے مورث اعلیٰ کا نام پشنہ تھا اور اس کے بیٹے کا نام اوغوز تھا۔ اوغوز کے چھے فرزند تھے۔ بڑے بیٹے کا نام کین یعنی سورج تھا۔ دوسرے بیٹے کا نام آیو یعنی چاند تھا۔ تاتاریوں کا دعویٰ ہے کہ وہ آیو یعنی چاند کی نسل سے ہیں۔ آیو کا بیٹا جلدس تھا۔ جلدس کا بیٹا ہیو تھا۔ جس سے شاہان چین کی نسل ہوئی ہے۔ ایلخان جو آیو کی چھٹی پشت پر تھا اس کے دوبیٹے تھے۔ ایک خان دوسران ناگس۔ ناگس اولاد نے تاتار کو آباد کیا۔ چنگیز خان کا دعویٰ تھا کہ وہ خان کی نسل سے ہے۔ ناگس غالباً تکش یا سانپ کی نسل ہے۔ افغانستان اور شمالی مغربی علاقے قدیم زمانے میں ہندوستان سے ملحق رہا ہے اور یہ علاقہ عہد قدیم میں ہندو تہذیب کے بڑے مرکزوں میں سے تھا۔ بھارت ورش کے زمانے میں یہ گندھارا کہلاتا تھا۔ کابل، گندھار (قندھار) اور سیستان اکثر سیاسی حثیت سے ہندوستان کا حصہ رہے ہیں۔ پارتھی عہد میں ان مقامات کو سفید ہند کہا جاتا تھا۔ اس علاقہ کی پرانی عمارات اور خانقاہوں کے کھنڈرات اس کی تائید کرتے ہیں۔ خصوصاً ٹیکسلہ کی عظیم انشان یونیورسٹی کے آثار جس کی شہرت آج سے دوہزار سال پہلے اپنے عروج پر تھی۔ اس زمانے جو بھی فاتح ہند پر حملہ آور ہوتا تھا تھوڑے عرصے میں اس کا شمار چھتریوں میں ہونے لگتا تھا۔ سکوں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے حکمران کا نام غیر ملکی ہے۔ لیکن بیٹے یا پوتے کا نام سنسکرت میں ہے اور اس کی تخت نشینی یا تاج پوشی چھتری رسوم کے مطابق ہوتی تھی۔ راجپوتوں کے اکثر قبیلوں کا سلسلہ نسب سک یا سیتھی حملہ آوروں سے تھا یا وہ سفید ہن قوم کے حملہ آوروں میں سے تھے۔ یہی زمانہ تھا کہ باہرسے حملہ آور اقوام ہندو معاشرے میں داخل ہورہی تھیں اور ہندو تہذیب اختیار کررہی تھیں۔ ان حملہ آوروں کو گوترا عطا کرنے میں مقامی پنڈت سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے۔ اس طرح وہ ہندو تہذیب کی ترقی کی پوری کوشش کررہے تھے۔ چنانچہ وشنو، شیوا، چندی اور سوریہ وغیر کے ادیان بہت پھیل گئے۔ اس سے نہ صرف برہمنی مذہب نہ صرف اپنے عروج پر پہنچا۔ بلکہ بدھ مذہب کو سخت صدمہ پہنچا اور وہ برصغیر کو خیرباد کہنے پرمجبور ہوگیا۔ اس طرح راجپوتوں نے برہمنوں کے ساتھ مل ہندو دھرم کو ارسر نو زندہ کیا اور بدھوں کو تہس نہس کردیا۔ سک، پہلو یون اور ترشک جو وسط ایشیا کی مشہور قومیں تھیں اور وہ ہند پر حملہ آور ہوکر ہندو مذہب میں داخل کر راجپوت کہلائیں۔ ولسن کا کہنا ہے کہ راجپوت قبائل راٹھور، پوار، اور گہلوٹ وغیرہ یہاں پہلے سے آباد تھے۔ یہ چاروں قبائل اصل میں گجر ہیں جنہیں بعد میں راجپوت کہا جانے لگا ہے۔ کیوں کے یہ اس وقت حکمران تھے۔ اس بناء پر راجپوت یا راج پتر یعنی راجاؤں کی اولاد کی اصطلاح وجود میں آئی۔ اس کی اصل پہلوی کلمہ وسپوہر (شاہ کا بیٹا) سے ہے۔ ولسن انہیں غیر ملکی تسلیم کرتا ہے۔ کیوں کہ ان لوگوں نے ساکا اور دیگر قبائل کے ساتھ مل کر برصغیر کی تسخیر کی تھی۔ راجپوت رسمی طور پر برہمنی مذہب میں داخل ہونے والے گوجر ہیں جن لوگوں نے رسمی طور پر متصب برہمنی نظام کی شرائط اور قبول کرنے سے انکار کیا انہیں رسمی طور پر ہندو مذہب میں داخل نہیں کیا گیا اور وہ آج تک وہی جاٹ، گوجر اور آہیر ہیں۔ یہی وجہ ہے گجروں، جاتوں اور راجپوتوں مشترک قبائلی نام ہیں۔ ان لوگوں کو اپنے مقصد کے پیش نظر وششتھاؤں نے راجستان میں کوہ آبو میں ایک قربانی کی آگ کا اہتمام کیا اور بہت سے نوادر لوگوں کو اس آگ کے ذریعہ پاک کیا۔ ان لوگوں کو راج پتر (بادشاہوں کی اولاد) کا نام دیا گیا جو وہ پہلے ہی تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ایران بالخصوص سیستان میں بڑے زمیندار وس پوہر بادشاہوں کی اولاد کہلاتے تھے۔ برصغیر کی اصطلاح راج پتر کا ایرانی کلمہ کا ترجمہ ہے۔ قانون گو کا کہنا غلط ہے کہ اس سرزمین پر ابتدائی قابض جاٹوں کی جگہ نوادار راجپوتوں نے لی۔ قانون گو نے اس بات کو فراموش کردیا کہ پوار (پنوار)، تنوار، بھٹی، جوئیہ وغیرہ جاٹوں اور راجپوتوں دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ جاٹوں کی جگہ راجپوتوں نے اس لی کہ کہ برہمنوں نے موخر الذکر کے خلاف بھڑکایا۔ کیوں کہ راجپوت تھوڑا عرصہ پہلے ہندو مذہب میں آئے تھے۔ برہمنوں نے راجپوتوں کو اعلیٰ مقام دیا، ان کی تعریف میں قصائص لکھے اور انہیں رام ارجن (سورج اور چندر بنسی) سے جا ملایا۔ اس کے بدلے راجپوتوں نے پھر پور ’وکشنا‘ اور ’اگر ہارا‘ دیے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ برصغیر میں فاتح کی آمد پر جاٹوں کو براہمنی نظام میں مدغم کرنے کی سوچی سمجھی کوششیں کی گئی۔ غیر ملکی ساکا کو ہندو سماج کا حصہ بنانے کی غرض سے مشہور ’ورانا سٹوما‘ کی رسوم گھڑی گئیں اگر والا کا کہنا ہے کہ ان رسوم کی ادائیگی نہایت آسان تھی جو کہ محض ایک ضابطہ کی کاروائی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ غیر ملکیوں کو مذہبی رسوم کے ذریعہ ہندو سماج کا حصہ بنایا جائے۔ ویسنٹ اسمتھ کا کہنا ہے بعض گونڈوں اور بھاروں نے فوجی طاقت حاصل کر نے کے بعد برہمنی مذہب کو قبول کرلیا اس طرح وہ بھی راجپوتوں میں شامل ہوگئے۔ اس طرح راجپوت برہمنی رنگ میں رنگے جاٹ اور گوجر ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم راجپوتوں کے ظہور سے بہت پہلے صرف جاٹوں اور گوجروں کو وسطی برصغیر، راجستان گجرات سندھ میں پاتے ہیں۔ اگر کوئی راجپوت کسی جاٹ عورت سے شادی کرلے وہ جاٹ نہیں بنے گا۔ لیکن اگر وہ یا اس کی اولاد بیواہ کی دوبارہ شادی کا طریقہ اپنالے تو وہ جاٹ بن جائے گا۔ یہ مسلے کا اصل نقطہ ہے ایک راج پوت اور جاٹ میں صرف بیواہ کی دوسری شادی کا ہے۔ بیواہ کی شادی ہر دور میں رہی ہے۔ لیکن راجپوتوں کو براہمنوں کے غلط، غیر اخلاقی اور غیر منصفیانہ نظریات کے تحت اس بارے میں سننا بھی گوارہ نہ تھا۔ موجودہ دور میں پنجاب میں ان کی جاٹ اور راجپوتوں کی تقسیم بہت الجھی ہوئی ہے، ابسن کا کہنا ہے کہ پنجاب کے بڑے قبیلے راجپوت کہلاتے ہیں جب کہ ان کی شاخیں خود کو جاٹ کہتی ہیں۔ بیواہ کی شادی کی وہ اہم ترین نقطہ اختلاف تھا جو کہ کوہ آبو کی قربانی کے موقعہ پر جاٹوں اور برہمنوں کا اختلاف ہوا۔ جن لوگوں نے برہمنوں کی پیش کردہ شرائط کو تسلیم کیا وہ راجپوت کہلائے۔ اس کے برعکس جنہوں نے بیواہ کی شادی کرنے پر اصرار کیا وہ ہندو مذہب میں داخل ہونے کے وجود راجپوت کہلائے۔
راجپوتوں کا عروج
سی وی ویدیا ہشٹری مید بول انڈیا میں لکھتے ہیں کہ جب بدھ مذہب کے زیر اثرہندوں میں جنگی روح ختم ہوگئی تو راجپوتوں نے موقع پاکر ملک کے مختلف حصوں پر اپنی حکومتیں قائم کرلیں۔ بقول اسمتھ کے ہرش کی وفات کے بعد سے مسلمانوں کی آمد تک یعنی اندازاً ساتویں صدی عیسویں سے لے کر بارویں صدی عیسویں تک کے زمانے کو راجپوتوں کا دور کہا جاسکتا ہے۔ مسلمانوں کی آمد کے وقت کابل سے کامروپ تک کشمیر سے کوکن تک کی تمام سلطنتیں راجپوتوں کی تھیں اور ان کے چھتیس راج کلی (شاہی خاندان) حکومت کررہے تھے۔ چندر بروے نے اس تعداد کو پہلے پہل بیان کیا اور پنڈٹ کلہیان نے ’ترنگی راج‘ میں اس تعداد کی تصدیق کی ہے۔ جیمز ٹاڈ کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیوں کے بعد کے ناموں میں اختلاف ہے۔ چھتیس راج کلی میں برصغیر کا پہلا تاریخی خاندان موریہ خاندان اس میں شامل ہے لیکن اس بنا پر نہیں ہے بلکہ میواڑ کے ایک قدیمی خاندان کی وجہ سے۔
ان غیر ملکی اقوام نے برہمنی مذہب اختیار کرلیا، تو ہندو پنڈتوں نے انہیں نہ صرف چھتری قرار دیا اور انہیں گوتریں دیں اور ان کا نسلی تعلق دیو مالائی شخصیات سے جوڑ دیا۔ اس طرح یہ نسلی اعتبار سے پانچ طبقات میں مستقیم ہیں۔ یعنی راجپوت پانچ طبقوں میں تقسیم ہیں جو درج ذیل ہیں۔ # سوریہ یا سورج بنسی = ان کا مورث اعلی رام چندر ہے اور تمام سورج بنسی قبائل کے شجرہ نسب رام کے لڑکوں ’لو‘ اور ’کش‘ سے ملتے ہیں۔
راجپوتوں کی نسلی تقسیم
1. چندریا یا چندر پنسی = ان کا مورث اعلیٰ ہری کرشن تھا۔ ہری کرشن کا لقب یادو تھا، جس کا ایک تلفظ جادو ہے۔ اس لئے چندر بنسی قبائل یادو کے علاوہ جادو بھی کہلاتے ہیں۔
2. اگنی کل یا آگ بنسی = روایات کے مطابق برہمنوں نے کوہ آبو پر ایک اگنی کنڈ (آگ کے الاؤ) سے دیوتاؤں کی مدد سے پیدا کیا تھا
3. ناگ بنسی یا تکشک = ہند آریائی میں تکشک سانپ کو کہتے ہیں اور یہ اقوام کا دعویٰ ہے کہ یہ ناگ کی نسل سے ہیں۔
4. جٹ یا جاٹ = جٹوں کا راجپوتوں میں شمار نہیں ہوتا ہے۔ تاہم انہیں چھتیس راج کلی میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک کہانی کے مطابق جٹ قوم نے شیو دیوتا کے بالوں سے جنم لیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ جت
بھی لمبے لمبے بال رکھتے تھے۔ ان پنچوں طبقات میں بزرگ بالترتیب سوریہ، چندو، آگ بنسی، ناگ بنسی اور جاٹ آتے ہیں۔ راجپوتوں کے اپنے بیشمار جغعرفیائی مساکن اور متفرق ساکھاؤں میں اور گوتوں کی وجہ سے ان کی اتنی شاخیں ہوگئیں کے شمار محال ہے۔ یہ قبائل کے علاوہ خاندانوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان خاندانوں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے گروہ جو اپنے کو مستقل گروہ قرار دیتے تھے۔ اس طرح راجپوت سیکڑوں نہیں ہزاروں گروہ میں بٹے گئے ہیں۔
راجپوتوں کا کردار
ایشوری پرشاد کا کہنا ہے، کہ راجپوتوں نے جنگ کو اپنا پیشہ بنا رکھا تھا اور نظم و نسق کے بلند اور شریفانہ فرائض سے غافل ہوگئے تھے۔ جس کی بجاآوری نے اشوک و ہرش کو غیر فانی بنا دیا تھا۔ کوئی ایسی تحریری شہادت موجود نہیں ہے کہ جس سے نظم و نسق و حکومت کے دائرے میں راجپوتوں کے کارناموں کا اظہار ہوا ہو۔ ان کی پوری تاریخ قبائلی جنگ و پیکار کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ یہی وجہ ہے وہ بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ نہیں کرسکے اور انہیں پسپا ہوا پڑا اور ان کی طاقت کو ذوال آگیا۔ کبر و نخوت ان کی بربادی کا سبب بنی، ذات پارت کی قیود سے باہمی نفاق اور حسد و کینہ کی پرورش ہوئی۔ اس لئے ان کی معاشی طاقت کمزور ہوگئی تھی۔ اس لئے ان کا نظام حکومت جاگیر ادرانہ تھا۔ یہ سیاسی اعتبار سے متحد نہیں تھے۔ اس لئے وہ بیرونی حملہ آوروں کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہوگئے۔ سی وی ویدیا لکھتے ہیں کہ قنوج اور بنگال کے سوا راجپوت راجاؤں کو مسقل فوج رکھنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ بعض تو ضرورتوں کے وقت فوج بھرتی کرلیا کرتے تھے اور بعض اپنے جاگیرداروں سے ان کے متوسلین کو طلب کرلیا کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو حکومتوں کے چلانے یا ان کو قائم رکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ صرف حکمران خاندان اپنے ہم قبیلہ بھائی بندوں کو ساتھ لے کر حریف سے بھڑ جاتاتھا۔ فتح پائی تو فہا، شکست کھائی تو ملک حریف کے حوالے کردیا۔ عوام کو راج کے پلٹ جانے کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ قنوج کے پرتیہار اور دکن کے راشتٹر کوٹ چونکہ جنگی قبیلے تھے، اس لئے ان کی فوج میں بیروی عنصر شامل نہیں تھے۔ البتہ بنگال کے پال اور سین راجاؤں نے مالوہ جنوبی گجرات کرناٹک وغیرہ کے بعض لوگوں کو بھرتی کررکھا تھا۔ کیوں کہ بنگال میں راجپوتوں کی تعداد کافی نہیں تھی اور بنگالی اس زمانے میں جنگی قوم نہیں سمجھے جاتے تھے۔ باقی ملک میں بھی راجپوت راجاؤں کے ہاں مستقبل فوج کا کوئی وجود نہیں تھا۔ شمالی برصغیر میں راجپوتوں کی ریاستیں دہلی، اجمیر، قنوج، گندھار، مالوہ اور گجرات میں قائم ہوئیں۔ دہلی اور اجمیر کی ریاست کا بانی اگرچہ اننگ پال تھا، لیکن پرٹھوی راج کو سب سے زیادہ شہرت ملی۔ قنوج میں مختلف راجپوت خاندانوں نے حکومت کی۔ گندھارا کی ریاست کے حکمرانوں میں جے پال اور انند پال زیادہ مشہور ہوئے۔ جے چند راٹھور نے کافی نام پیدا کیا۔ مالوہ میں پڑھیار خاندان کی حکومت تھی۔ اس خاندان کا راجہ بھوج بحثیت قدردان علم بہت مشہور ہوا۔ وہ خود عالم اور شاعر تھا۔ گجرات بندھیل کھنڈ اور بنگال میں مختلف خاندانوں نے حکومت کی۔ میواڑ کی ریاست میں بھی مشہور راجہ گزرے ہیں۔ بالائی دکن کے زیریں (جنوبی علاقے) چولا، چیرا اور پانڈیا کی ریاستیں قائم ہوئیں۔
راجپوتوں کے خصائص
راجپوتوں نے اگرچہ اپتدا میں مسلمانوں کے خلاف کامیاب دفاع کیا اور مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا۔ اور مسلمانوں کے خلاف یہ باز اوقات متحد بھی ہوگئے۔ خاص کر محمود غزنوی کے خلاف جے پال کی سردگی میں، محمد غوری کے خلاف پرٹھوی راج چوہان کی سردگی میں اور بابر کے خلاف رانا سنگا کی سردگی میں۔ مگر یہ وقتی وفاق تھا جو صرف جنگ تک محدود رہا اور جنگ کے بعد ان کے درمیان وہی نفاق، پیکار اور جنگ کا سلسلہ جاری رہا۔
راجپوت آج بھی اپنی بہادری کی وجہ سے یاد کئے جاتے ہیں۔ شجاعت اوردلاوری میں ہند کی اقوام میں کوئی ان سا پیدا نہیں ہوا ہے۔ راجپوت اپنی بات کے پکے، تیغ زنی کے ماہر اور اعلیٰ قسم کے شہسوار تھے۔ اپنی آن بچانے کے لئے جان کی بازی لگادیتے تھے۔ راجپوتوں نے اپنی خوبیوں کی بدولت کافی عرصہ (ساتویں صدی عیسوی تا بارویں صدی عیسوی) تک برصغیر میں حکومت کی اور ایک تہذیب قائم کی۔ لیکن یہ اپنی بالاالذکر برائیوں کی بدولت ان کی طاقت کو ذوال آگیا اور انہیں بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں پسپا ہونا پڑا۔ راجپوت نہ صرف میدان جنگ میں جوہر دکھاتے تھے، بلکہ عمدہ انسان اور اعلیٰ میزبان تھے۔ مہمان نواز اور سخاوت کا جذبہ ان میں موجود تھا۔ راجپوت آرٹ و ادب اور موسیقی کے دلدادہ تھے۔ راجپوت مصوری کی اپنی انفرادیت ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے مصوری کا ایک اسکول وجود میں آیا۔ ہر راجہ کے دربار میں ایک نغمہ سرا ضرور ہوتا تھا، جو خاندانی عظمت کے گیت مرتب کرتا تھا۔ ان کی معاشرتی زندگی اچھی ہوتی تھی۔ اگرچہ ان میں بچپن میں شادی کا رواج تھا، لیکن اعلیٰ خاندان کی لڑکیاں جب جوان ہوتی تھیں تو اپنی پسند کی شادی کرتی تھیں۔ راجپوت عورتیں اپنی پاک دامنی اور عضمت پر جابجا طور پر ناز کرسکتی تھیں۔ ستی اور جوہر کی رسم اس جذبے کی ترجمانی کرتی تھی۔ جب کسی عورت کا شوہر کا مرجاتا تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ آگ میں جل جانا پسند کرتی تھیں۔ اس طرح کسی جنگ میں ناکامی کے خدشے کے بعد راجپوت اپنی عورتوں کو قتل کرکے میدان جنگ میں دیوانہ وار کود جایا کرتے تھے۔ (انوار ہاشمی، تاریخ پاک و ہند۔ ۷۱) ایک عجیب رسم شادی کی تھی وہ شادی اپنے قبیلے یا ہم نسلوں میں نہیں کرتے تھے۔ بلکہ اس کے لئے ضروری تھا کہ شادی جس سے کی جاتی تھی ان کے درمیان پدری سلسلہ نہ ہو۔ راجپوت رانا، راؤ، راول، راجہ اور راجن وغیرہ لائقہ استعمال کرتے ہیں،ان تمام کلمات کے معنی راج کرنے والے۔ مسلمانوں میں سے مغلوں نے راجپوتوں کے جنگی جذبہ سے فائدہ اٹھایا اور راجپوتوں کو اپنے لشکر میں بھرتی کثرت سے بھرتی کیا۔ مغلوں کی اکثر فتوحات راجپوتوں کی رہیں منت تھیں۔ جہانگیر اجمیر کے بارے میں لکھتا ہے کہ ضرورت پڑنے پر یہاں سے پجاس ہزار سوار اور تین لاکھ پیادے باآسانی حاصل ہوسکتے ہیں۔
راجپوتوں کا مذہب
راجپوتوں کا سب سے بڑا دیوتا سورج تھا۔ وہ اس کی پرستش کرتے اور اس کو راضی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس کے نام پر اشو مید (گھوڑے کی قربانی) کرتے تھے اور اسی کے نام پر لڑتے تھے اور جان دیتے تھے۔ وہ اسے سوریہ کہتے تھے۔
ما خوذ آزاد دائرۃ المعارف وکی پیڈیا
Comments
Post a Comment