مہاراجہ کنشک کشان گجر تحریر :- احمد وقار گجر
تاریخ دانوں نے مہاراجہ کنشک کو بیرونی حملہ آور تحریر کرتے ھوئے لکھا ھے کہ شاکا،ھن،گرجر بیرونی حملہ آور تھے ان کی تباہ کاریوں کی وجہ سے مسلم دور سے قبل کی تاریخ تحریر کرنا مشکل ھو گیا. کشان بیرونی حملہ آور تھے یہ کہیں سے ثابت نہیں. وہ اس لئے کہ راج ترنگنی سے سات سو سال پہلے " برھم سدھانت" کتاب لکھی گئی جس میں مہاراجہ کنشک کو مہاراجہ یدھشتر (پانڈو ) کی نسل تحریر کیا گیا ھے. مہاراجہ یدھشتر سورج ونشی خاندان سے تعلق رکھتا تھا. ملک کے طول و عرض میں جتنے بھی آج کشانہ سب گجر کہلواتے ھیں. اور اپنے آپ کو شری رام چندر کے بیٹے مہاراجہ کش کی اولاد مانتے ھیں. کشانوں کا یہ دعویٰ برھم سدھانت کتاب سے مطابقت رکھتا ھے. دوسری صدی عیسوی کا جو کتبہ موجودہ ریاست بہاولپور وادی ستلج سے برآمد ھوا. جس کا حوالہ بمبئی گزیٹر میں موجود ھے اس سے پتہ چلتا ھے کہ اس علاقہ کا نام کشانوں نے اپنے دور حکومت میں اپنی قوم کے نام پر گرجراتر (گجرات) رکھا. اس سے پہلے یہ جویہ دیش تھا. اور یہاں جویہ خاندان کی حکومت تھی. جویہ گوت آج گجروں میں موجود ھے. غلام علی نے اپنی کتاب "خزانہ عامرہ " میں جویہ کو گجروں کا خاندان تحریر کیا ھے. یہاں یہ واضح کر دینا بھی ضروری ھے کہ مہاراجہ کنشک کے آباؤ اجداد کھٹ رائے کی اولاد ھونے کی وجہ سے کھٹانہ کہلاتے تھے مگر مہاراجہ کنشک چونکہ "بودھی" تھا اس لئے وہ کھٹانہ نہیں کہلایا بلکہ صرف کشان کہلایا اور اس کی اولاد کا بھی یہی گوت کشانہ کسانہ رہا. بقایا خاندان کے لوگ آج تک کھٹانہ ھی کہلاتے ھیں. .... افغانستان سے ملنے والے 1907ء کے کتبہ میں مہاراجہ کنشک کشان نے اپنے آپ کو "گزر" تحریر کیا ھے. مہاراجہ کنشک کی حکومت کا دارالخلافہ پرشپورہ پشاور میں تھا اور اس کی سلطنت کی حدود مغرب میں بحیرہ کیسپین تک تھی. جسے بعد میں بحر خزر کہا گیا. مہاراجہ کنشک نے بحر کیسپین کے اردگرد چھاونیاں بنائی اور وھاں گجر دستے مستقلاً تعینات کر دیئے. انھیں گجروں کے نام پر بحر کیسپین " بحر خزر " کہلانے لگا. اور اسی طرح وسط ایشیا کا ملک چیچن انگوشیتا چیچی گجروں کے نام پر ایک یادگار نشانی ھے. مہاراجہ کنشک کے زمانہ میں یورپ سے براستہ وسط ایشیا اور افغانستان ھمارے ملک تجارت ھوتی تھی. وسط ایشیا کے ملک ازبکستان میں ایک ضلع کا نام " گزر" اور ایک ضلع کا نام " کسان" ھے. ایران میں ایک شہر کا نام " کشان " ھے.
تاریخ دانوں نے مہاراجہ کنشک کو بیرونی حملہ آور تحریر کرتے ھوئے لکھا ھے کہ شاکا،ھن،گرجر بیرونی حملہ آور تھے ان کی تباہ کاریوں کی وجہ سے مسلم دور سے قبل کی تاریخ تحریر کرنا مشکل ھو گیا. کشان بیرونی حملہ آور تھے یہ کہیں سے ثابت نہیں. وہ اس لئے کہ راج ترنگنی سے سات سو سال پہلے " برھم سدھانت" کتاب لکھی گئی جس میں مہاراجہ کنشک کو مہاراجہ یدھشتر (پانڈو ) کی نسل تحریر کیا گیا ھے. مہاراجہ یدھشتر سورج ونشی خاندان سے تعلق رکھتا تھا. ملک کے طول و عرض میں جتنے بھی آج کشانہ سب گجر کہلواتے ھیں. اور اپنے آپ کو شری رام چندر کے بیٹے مہاراجہ کش کی اولاد مانتے ھیں. کشانوں کا یہ دعویٰ برھم سدھانت کتاب سے مطابقت رکھتا ھے. دوسری صدی عیسوی کا جو کتبہ موجودہ ریاست بہاولپور وادی ستلج سے برآمد ھوا. جس کا حوالہ بمبئی گزیٹر میں موجود ھے اس سے پتہ چلتا ھے کہ اس علاقہ کا نام کشانوں نے اپنے دور حکومت میں اپنی قوم کے نام پر گرجراتر (گجرات) رکھا. اس سے پہلے یہ جویہ دیش تھا. اور یہاں جویہ خاندان کی حکومت تھی. جویہ گوت آج گجروں میں موجود ھے. غلام علی نے اپنی کتاب "خزانہ عامرہ " میں جویہ کو گجروں کا خاندان تحریر کیا ھے. یہاں یہ واضح کر دینا بھی ضروری ھے کہ مہاراجہ کنشک کے آباؤ اجداد کھٹ رائے کی اولاد ھونے کی وجہ سے کھٹانہ کہلاتے تھے مگر مہاراجہ کنشک چونکہ "بودھی" تھا اس لئے وہ کھٹانہ نہیں کہلایا بلکہ صرف کشان کہلایا اور اس کی اولاد کا بھی یہی گوت کشانہ کسانہ رہا. بقایا خاندان کے لوگ آج تک کھٹانہ ھی کہلاتے ھیں. .... افغانستان سے ملنے والے 1907ء کے کتبہ میں مہاراجہ کنشک کشان نے اپنے آپ کو "گزر" تحریر کیا ھے. مہاراجہ کنشک کی حکومت کا دارالخلافہ پرشپورہ پشاور میں تھا اور اس کی سلطنت کی حدود مغرب میں بحیرہ کیسپین تک تھی. جسے بعد میں بحر خزر کہا گیا. مہاراجہ کنشک نے بحر کیسپین کے اردگرد چھاونیاں بنائی اور وھاں گجر دستے مستقلاً تعینات کر دیئے. انھیں گجروں کے نام پر بحر کیسپین " بحر خزر " کہلانے لگا. اور اسی طرح وسط ایشیا کا ملک چیچن انگوشیتا چیچی گجروں کے نام پر ایک یادگار نشانی ھے. مہاراجہ کنشک کے زمانہ میں یورپ سے براستہ وسط ایشیا اور افغانستان ھمارے ملک تجارت ھوتی تھی. وسط ایشیا کے ملک ازبکستان میں ایک ضلع کا نام " گزر" اور ایک ضلع کا نام " کسان" ھے. ایران میں ایک شہر کا نام " کشان " ھے.
Comments
Post a Comment